مہردر: تعارف

 

پس منظر

              اکیسویں صدی کا بلوچستان آج بھی ادارہ سازی کے فقدان کا شکار ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ 2010ء کے وسط میں آنے والے سیلاب نے جب اس کے مشرقی حصے کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی تو قومی سطح پر ایسا کوئی ادارہ نہ دِکھتا تھا تو جو اس کڑے وقت میں عوام کے ساتھ کھڑا ہوتا۔ ایسے میں چند پڑے لکھے مقامی نوجوان جنہوں نے حا ل ہی میں دی بلوچ پبلی کیشن‘ کے نام سے ایک اشاعتی پروگرام کا آغاز کیا تھا، اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے اس دریا میں کود پڑے۔ بلوچستان سمیت دنیا بھر سے اپنی مدد آپ کے تحت سیلاب زدگان کے لیے اپیل جاری کی۔ اس کے نتیجے میں جو کچھ میسر آیا ، اس سے دس روزہ مفت میڈیکل کیمپ اور راشن عوام میں تقسیم کیا۔ لیکن جلد ہی اس ٹیم نے محسوس کیا کہ معاملہ لوگوں کی فوری مالی معاونت کا نہیں بلکہ اصل مسئلہ اس خطے کے عوام کی فکری تربیت کا ہے اور یہ کام کسی منظم پلیٹ فارم کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔ ایسے ادارے بنانے ہوں گے جو بالخصوص نئی نسل کی فکری صلاحیتوں کو مہمیز دینے کے لیے خام مال مہیا کر سکیں۔ چند ماہ کی محنت اور مسلسل مکالمے کے بعدیہ خیال جلد ہی مہردرانسٹی ٹیوٹ آف ریسرچ اینڈ پبلی کیشن  کی صور ت میں سامنے آیا۔

              نوجوان صحافی، مصنف اور استاد عابد میر اور سماجی ترقی کا وسیع تجربہ رکھنے والی لیاری کی پروین ناز اس کے بانی اراکین ٹھہرے۔ پھر اس کے بعد ’لوگ آتے گئے اور قافلہ بنتا گیا۔‘ جنوری 2011ء میں اسے ایک غیرمنافع بخش ادارے کی صورت سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹرڈ کر لیا گیا۔

بعدازاں 2022ء میں اسے کمپنیز ایکٹ کے تحت ازسر رجسٹرڈ کیا گیا اور اس کے نام سے انسٹی ٹیوٹ کا لفظ حذف کرتے ہوئے اسے مہردر ریسرچ اینڈ پبلی کیشن قرار دیا گیا۔

مقاصد

ادارے کے آئین میں اس کے قیام کے مقاصد کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ تحقیق، ورکشاپس، تھیٹر، فلم، ڈراما اور پبلی کیشن کے ذریعے عوام بالخصوص پسے ہوئے طبقات کو بنیادی انسانی، سیاسی اور معاشرتی حقوق سے متعلق آگاہی فراہم کی جائے گی۔ مقامی ثقافت، زبان و ادب، تاریخ اور میڈیا کی ترویج کی جائے گی۔ بلوچستان، تاریخ، سیاست، ادب اور ذرائع ابلاغ سے متعلق مختلف کتب کی اشاعت اور ڈاکیومینٹریز پر کام کیا جائے گا۔ غربت، پسماندگی، تعلیم اور ترقی سے متعلق موضوعات پر تحقیقی سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا۔ خواتین پرہر قسم کے تشدد کی مذمت کرتے ہوئے سماجی سطح پر صنفی برابری جیسے موضوعات پر تحقیقی و فکری بنیادوں پر کام کیا جائے گا۔

اشاعتی سلسلہ

اس سلسلے میں جنوری2011ء میں ہی ادارے کی پہلی کتاب ’’نواب خیر بخش مری کے انٹرویوز‘‘ کے نام سے سامنے آئی۔ اس سلسلے کا آغاز ادارے کے بانی اراکین نے نجی فنڈ سے کیا۔ بلوچستان کے عوام تک سستی علمی و فکری کتب کی فراہمی کے اس منصوبے کے تحت پہلے سال 14 مختلف کتابیں چھاپی گئیں۔

جب کہ ’مہردر‘ کے نام سے ادارے کا ایک سالانہ تحقیقی جریدہ شائع کرنے کا اہتمام بھی کیا گیا۔ اس سلسلے کا پہلا جریدہ دسمبر2011ء میں منظرعام پر آیا۔ یہ بلوچستان میں 2010ء میں آنے والے سیلاب سے متعلق تحقیق پر مبنی ہے۔ دوسرا حصہ ’بلوچستان میں ذرائع بلاغ‘ دسمبر2012ء میں شایع ہوا۔ اسی سال بلوچستانی زبانوں کے اردو تراجم پہ مشتمل ادبی سلسلہ ’مہرنامہ‘ کا پہلا حصہ بھی شایع ہوا۔ 2022ء سے اس کا احیا کیا گیا اور اب یہ سال میں دو بار(خزاں اور بہار میں) شائع ہوتا ہے۔

              اب تک ادارہ‘ ادبیات، سماجیات، سیاسیات، تاریخ، علمی تحقیق و دیگر موضوعات پر ایک سو سے زائد کتب شایع کر چکا ہے۔

              مہردر کی خواہش اور کوشش ہے کہ بلوچستان کے ادیبوں کی کتابیں بلامعاوضہ شائع ہوں اور انہیں رائلٹی بھی ادا کی جائے۔

کتاب میلے

              سستی کتابوں کی فراہمی کے منصوبے پر عمل کرتے ہوئے کوئٹہ سمیت بلوچستان کے مختلف شہروں خاران، نوشکی، تربت، گوادر، اوستا محمد، جھل مگسی، جعفرآباد، جیکب آباد کے علاوہ کراچی، اسلام آباد میں بھی میں کتاب میلوں کا اہتمام کیا گیا۔ جہاں محدود پیمانے پر بک اسٹال لگائے گئے اور مختلف موضوعات پر سستی کتابیں فراہم کی گئیں۔

              بلوچستان میں تب یہ اپنی نوعیت کا نیا سلسلہ تھا، جسے عوام نے بھرپور پذیرائی دی۔ مہردر کا یہ سلسلہ اس قدر کامیاب رہا کہ اب صوبے میں یہ ایک ٹرینڈ کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

لائبریریوں کا قیام اور فروغ

    مہردر اپنے قیام سے ہی بلوچستان بھر میں لائبریریوں کے قیام اور فروغ کے لیے کوشاں رہا ہے۔ اس سلسلے میں عوام کی مدد سے دوردراز علاقوں میں کئی لائبریریاں قائم کی گئیں اور کئی غیرسرکاری پبلک لائبریریوں کو کتابیں فراہم کی گئیں۔ 

اس ضمن میں مہردر اور سنگت اکیڈمی کی نئی شائع ہونے والی کتابیں تواتر سے درجنوں پبلک لائبریریوں میں بھجوائی  جاتی ہیں۔ ا س کے علاوہ ملک بھر سے مخیرحضرات کے مالی اور علمی تعاون سے ملنے والی کتابیں بھی ایسی لائبریریوں تک پہنچانے کا اہتمام کیا جاتا ہے جو کسی قسم کی معاونت سے محروم ہیں اور کمیونٹی کی مدد سے چلائی جا رہی ہیں۔ 

میڈیا

سات جولائی2012ء کو ادارے کے زیراہتمام بلوچستان میں پہلی بار سوشل میڈیا سے متعلق ایک روزہ سیمینار کا اہتمام کیا گیا۔کوئٹہ پریس کلب میں ہونے والے اس سیمینار سے بی بی سی کے وسعت اللہ خان سمیت امریکا میں مقیم نوجوان صحافی ملک سراج اکبر ودیگرنے خطاب کیا۔ سیمینار میں سو سے زائد میڈیا ورکر اور طلبا شریک ہوئے۔ اس مختلف نوعیت کی سرگرمی کو سراہتے ہوئے نوجوانوں نے اس بابت مکالمے کے تسلسل پر زور دیا۔

              یکم جون 2013ء کو کراچی پریس کلب میں ادارے کے دوسرے تحقیقی سال نامہ (بلوچستان میں ذرائع ابلاغ) کی تقریب رکھی گئی، جس سے نام ور صحافیوں وسعت اللہ خان، محمد حنیف، اعجاز منگی، لطیف بلوچ، اختر بلوچ اور دیگر نے خطاب کیا اور بلوچستان سے اسے اپنی نوعیت کا اعلیٰ کام قرار دیا۔ 

              2014ء میں کراچی کے علاقہ لیاری میں مقیم ہم فکر نوجوانوں نے ’مہردر آرٹ اینڈ پروڈکشن‘ کے نام سے مہردر کے ایک ذیلی ادارے کی بنیاد ڈالی۔ جو لیاری کے علاقے میں اب کام یابی سے ایک فلم اینڈ فوٹو گرافی اسکول چلا رہا ہے۔ اس ادارے سے وابستہ نوجوان اپنی مدد آپ کے تحت سات مختصر دورانیے کی سماجی فلمیں بنا چکے ہیں۔ فوٹوگرافی کی نمائش منعقد کر چکے ہیں۔ نیز ایک لائبریری کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔

آزادی اظہار کے عالمی دن تین مئی2016ء کو"حال حوال ڈاٹ کام"کے نام سے ایک ویب سائٹ لانچ کی گئی، جس میں بلاگ رائٹنگ کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ اس کے نتیجے میں بلوچستان بھر سے سیکڑوں نوجوان لکھاریوں کی کھیپ سامنے آئی۔ چند تکنیکی اور مالی مسائل کے باعث، کچھ وقفے کے بعد 3 مئی 2023ء کو اسے ری لانچ کیا گی اور اس میں بلوچستان کے حوالے سے بلاگنگ اور خصوصی رپورٹس پہ توجہ دی جا رہی ہے۔

سماجی سرگرمیاں

مہردر ایک سرگرم ادارے کے بہ طور اپنا سماجی کردار بھی ادا کرتا رہا ہے۔ 2010ء کے سیلاب میں بھرپور کردار ادا کیا۔ 2013ء میں آواران میں آنے والے زلزلے میں مہردر کی لیاری میں موجود ٹیم نے ہر ممکن کرداد ادا کرنے کی کوشش کی۔ چندہ مہم ریلی، گلی گلی نکالی گئی۔ دس لاکھ روپے کی مالیت کا سامان آواران کے زلزلہ متاثرین تک پہنچایا گیا۔

2015ء میں کچھی کینال سے متعلق ایک روزہ آگہی سمینار کوئٹہ پریس کلب میں منعقد کیا گیا۔

2020ء اور 21ء میں کرونا کی وبا کے دوران ’رائٹرز ریلیف فنڈقائم کر کے بلوچستان بھر کے ادیبوں اور فن کاروں کی مالی معاونت کی گئی۔

              اگست2022ء کے سیلاب کے دوران بھی اسی فنڈ کے ذریعے ایک درجن سے زائد ادیبوں، شاعروں اور فن کاروں کی مدد کی گئی۔

رائٹرزریلیف فنڈ کو اب مستقل شکل دے دی گئی ہے۔

              اس سلسلے میں مستقبل میں مہردر ’سکول آف لرننگ‘ شروع کرنے کا ایک پروگرام رکھتا ہے۔

Post a Comment

0 Comments